مَوتے دا بنّاں ایویں دِسّے

مَوتے دا بنّاں ایویں دِسّے
جیوں دریاوے ڈھاہَ
اَگے دوزخ تپیا سُنیے
ہول پوے کہاہا
اِکناں نوں سبھ سوجھی آئی
اِک پھردے بے پرواہ
عمل جو کیتے آ دُنی وِچ
سے درگاہ اوگاہ

حوالہ: کلام بابا فرید؛ ڈاکٹر نذیر احمد؛ پیکیجز لیمیٹڈ؛ صفحہ 52

اردو ترجمہ

اے فرید! موت کا کنارا ایسا ہے جیسے دریا ساحل ریزی کرتا ہے۔ آگے تپتا ہوا دوزخ ہے جس کا ذکر سُن کر دل کانپ جاتا ہے۔ بعض کو تو اس کا علم تھا، بعض اس صورتِ حال سے بے پرواہ رہے کہ دنیا میں جو عمل کیے ہوں گے، وہی درگاہ خداوندی میں کام آئیں گے۔

ترجمہ: شریف کنجاہی