راتیں رتّی نیند نہ آوے دینہاں رہے حیرانی ہُو عارف دی گل عارف جانے، کیا جانے نفسانی ہُـو کریں عبادت پچھوتاسیں ضائعا گئی جوانی ہُو حق حضور اُنھاں نوں حاصل جِنھ مِلیا پیر جیلانی ہُو